Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



نماز کے لئے اذان دینا



السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
امید ہے کہ آپ حضرت والا خیروعافیت سے ہونگے،حضرت ایک سوال ہے کہ کیا نماز کیلئے آذان دینا ضروری ہے دوسرا سوال ہے کہ کیا رکوع کے بعد ربنا لک الحمد کہنا ضروری ہے اگر ضروری ہے تو کیا کوئی دلیل ہوگی میں امید کرتا ہوں کے آپ میرے سوال کا جواب دیکر مشکوروممنون ہونگے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق: (1) اذان سنتِ مؤکدہ ہے جو واجب کے قریب اور دین کے شعائر میں سے ہے۔
اگر جماعت سے نماز ادا کرتے ہوئے اذان اور اقامت بالکل ترک کردی گئی (یعنی مسجد میں بھی نہیں دی گئی اور قریب میں کسی مسجد کی اذان کی آواز بھی وہاں تک نہ پہنچتی ہو) تو یہ مکروہ اور گناہ ہوگا، البتہ نماز ادا ہوجائے گی۔
الفتاوی الہندیۃ (1/ 54)
ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ فی المسجد بغیر أذان وإقامۃ. کذا فی فتاوی قاضی خان ولا یکرہ ترکہما لمن یصلی فی المصر إذا وجد فی المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ. ہکذا فی التبیین والأفضل أن یصلی بالأذان والإقامۃ کذا فی التمرتاشی وإذا لم یؤذن فی تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ کذا فی المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ. کذا فی التمرتاشی۔
(2) رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہنا، اور سیدھے کھڑے ہو کر ربنا لک الحمد کہنا جمہور اہل علم کے ہاں مستحب سنت ہے۔
انَّما جُعِلَ الامامُ لیوتَمَّ بِہ، فَاذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا، وَاذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَاذَا قَالَ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ فقولوا: رَبَّنا وَلَکَ الْحَمْدُ• (الصحیح للبخاری، کتاب الأذان، باب انما جعل الامام لیوتم بہ، ص:۹۵، ج:۱، قدیمی)
امام اسی لیے بنایاگیا ہے، کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے، تو تم رکوع کرو، جب وہ (رکوع سے) سر اٹھائے، تو تم سر اٹھاؤ، اورجب وہ سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہے، تو تم ربنا ولک الحمد کہو۔ فقط واللہ اعلم

 



Leave a Comment