Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



بلی کی خرید و فروخت؟



سوال: بلی کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟ اور کیا بلّی پالنا سنت ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق: جی ہاں بلی کا فروخت کرنا جائز ہے، مگر اس کی آمدنی کا استعمال کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
اگر ضرورت ہوتو گھر میں بلّی پالنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ اس کی خبر گیری کی جائے، بعض صحابہ بلّی پالتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلّی کے جھوٹے پانی سے وضوء کیا۔
عن جابر رضی اللہ عنہ أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن أکل الہرّۃ وأکل ثمنہا (مشکاۃ: ۱۶۳) قال فی المرقاۃ أکل لحم الہرّۃ حرام بلا خلاف وأما بیعہا وأکل ثمنہا فلیس بحرام بل ہو مکروہ (مرقاۃ)
وفی الھندیۃ: بیع السنور وسباع الوحش والطیر جائز عندنا معلما کان أو لم یکن کذا فی فتاوی قاضی خان. (ج: 3، ص: 114، ط: دار الفکر)
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہا لیست ینجس إنہا من الطوافین علیکم والطوافات (ترمذی: ۱/۷۲)
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: إن الہر من متاع البیت لن ینقذر شیئاً ولن ینجّسہ۔ أخرجہ الزیلعی، معارف السنن: ۱/۹۲۳، ط: دارالکتاب دیوبند۔
فجائت ہرّۃ فاکلت منہا فلما انصرفت اکلت من حیث اکلت الہرّۃ ابوداؤد بذل المجود: ا/۹۲۴، ط: اعظم گڑھ۔
قال الشیخ خلیل أحمد سہارنفوری: والحقہا بہم أی بالممالیک وخدم البیت لأنہا خادمۃ حیث تقتل الموذیات أو لأن الأجر فی مواساتہا کما فی مواساتہم، (بذل المجہود: ۱/۲۲۴، ط: مرکز ابی الحسن)

 



Leave a Comment