Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



پرانی قبروں کو اکھاڑنا؟



السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتی صاحب اس مسئلہ کے ذیل میں کہ آج کے زمانے میں قبرستان میں ازسرنو مردوں کو دفن کرنے کے لئے قبرستان میں پرانی قبروں پر بلڈوزر چلایا جاتا ہے تاکہ زمین برابر ہو جائے جبکہ اس میں کچھ تازہ قبریں بھی ہوتی ہیں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق: اگر اس قدیم قبرستان میں موجود قبریں اتنی پرانی ہوچکی ہوں کہ ان میں دفنائی گئی میتیں بالکل مٹی بن چکی ہوں تو اس صورت میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس قبر ستان کی بوسیدہ قبروں کو کھود کر ان میں نئی میت کو دفن کرنا جائز ہوگا، اس صورت میں اگر سابقہ میت کی ہڈیاں وغیرہ کچھ قبر میں موجود ہوں تو انہیں قریب ہی دفن کردیا جائے یا اسی قبر میں ایک طرف علیحدہ کر کے ان ہڈیوں اور جدید میت کے درمیان مٹی کی آڑ بنادی جائے۔
لیکن اگر قبرستان میں موجود قبریں اتنی پرانی نہ ہوں کہ سابقہ میت بالکل مٹی ہوچکی ہو تو پھر ان قبروں کو کھود کر ان میں دوسری میت کو دفنانا جائز نہیں ہوگا۔ایسی صورت میں زمین کا کم ہونا یا قیمتی ہونا عذر نہیں، بلکہ تمام لوگوں کو چاہیے کہ باہمی مشاورت سے علاقے کی کسی زمین کو قبرستان کے لیے وقف کردیں؛ تا کہ وہاں اموات کی تدفین کی جاسکے۔
الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین (رد المحتار) (2/ 233): لایدفن اثنان فی قبر إلا لضرورۃ، وہذا فی الابتداء، وکذا بعدہ۔ قال فی الفتح: ولا یحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلی الأول فلم یبق لہ عظم، إلا أن لا یوجد، فتضم عظام الأول، ویجعل بینہما حاجز من تراب۔ ویکرہ الدفن فی الفساقی اہ وہی کبیت معقود بالبناء یسع جماعۃً قیاماً لمخالفتہا السنۃ، إمداد۔ والکراہۃ فیہا من وجوہ: عدم اللحد، ودفن الجماعۃ فی قبر واحد بلا ضرورۃ، واختلاط الرجال بالنساء بلا حاجز، وتجصیصہا، والبناء علیہا، بحر۔ قال فی الحلیۃ: وخصوصاً إن کان فیہا میت لم یبل؛ وما یفعلہ جہلۃ الحفارین من نبش القبور التی لم تبل أربابہا، وإدخال أجانب علیہم فہو من المنکر الظاہر، ولیس من الضرورۃ المبیحۃ لجمع میتین فأکثر ابتداءً فی قبر واحد قصد دفن الرجل مع قریبہ أو ضیق المحل فی تلک المقبرۃ مع وجود غیرہا، وإن کانت مما یتبرک بالدفن فیہا فضلاً عن کون ذلک ونحوہ مبیحاً للنبش، وإدخال البعض علی البعض قبل البلی مع ما فیہ من ہتک حرمۃ المیت الأول، وتفریق أجزاۂ، فالحذر من ذلک اہ: وقال الزیلعی: ولو بلی المیت وصار تراباً جاز دفن غیرہ فی قبرہ وزرعہ والبناء علیہ اہ۔ قال فی الإمداد: ویخالفہ ما فی التتارخانیۃ: إذا صار المیت تراباً فی القبر یکرہ دفن غیرہ فی قبرہ؛ لأن الحرمۃ باقیۃ، وإن جمعوا عظامہ فی ناحیۃ، ثم دفن غیرہ فیہ تبرکاً بالجیران الصالحین، ویوجد موضع فارغ یکرہ ذلک۔ اہ۔ قلت: لکن فی ہذا مشقۃ عظیمۃ، فالأولی إناطۃ الجواز بالبلی؛ إذ لا یمکن أن یعد لکل میت قبر لا یدفن فیہ غیرہ، وإن صار الأول تراباً لاسیما فی الأمصار الکبیرۃ الجامعۃ، وإلا لزم أن تعم القبور السہل والوعر، علی أن المنع من الحفر إلی أن یبقی عظم عسر جداً وإن أمکن ذلک لبعض الناس، لکن الکلام فی جعلہ حکماً عاماً لکل أحد، فتأمل۔ فقط واللہ اعلم

 



Leave a Comment