Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



عورت کے ذریعہ پڑھایا گیا نکاح؟



سوال: ایک عورت نے نکاح پڑھایا کیا وہ نکاح شریعت کے مطابق ہوگیا؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق: نکاح کے انعقاد کے لیے بنیادی چیز شرعی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرنا ہے۔ اگر زوجین خود گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کر لیں تو بھی نکاح ہو جائے گا، نکاح خواں کی حیثیت محض ترجمان اورمعبر کی ہوتی ہے۔ عام طور پر نکاح خواں عالم دین یا قاضی ہوتا ہے، نیز نکاح پڑھوانے میں نسبت اور برکت کو بھی ملحوظ رکھا جاتاہے، اس لیے کسی متبعِ شریعت صاحبِ نسبت عالم سے نکاح پڑھوانا چاہیے؛ تاکہ ان کی دعائیں اور برکات بھی حاصل ہوں۔
نیز عورتوں کے نکاح خواں ہونے میں مندرجہ ذیل قباحتیں ہیں:
عورتوں کا بلا ضرورتِ شدیدہ عام مجمع میں آنا اور غیر محارم کے ساتھ اختلاط۔
خاص ضرورت کے علاوہ عورتوں کی آواز کا بھی پردہ ہے نکاح خواں بننے میں اس پر عمل نہ ہو گا۔
ناقصات العقل ہونے کی وجہ سے نکاح میں غلطی کا امکان قوی ہوتا ہے۔
بہرحال بہتر یہ ہے کہ نکاح کا خطبہ بھی عالمِ دین یا جو شخص دین دار اور مسائل نکاح سے واقف ہو اس سے پڑھایا جائے، تاہم اگر عالمہ/فاضلہ عورت محارم کی موجودگی میں کسی محرم کا نکاح اس طور پر پڑھائے کہ کوئی غیر محرم وہاں موجود نہ ہو تو اس کی گنجائش ہے، لیکن عام مجمع میں آ کر یا مستقل طور پر اس کو رواج بنا لینے کی اجازت نہ ہوگی۔
الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین میں ہے:
ویندب إعلانہ وتقدیم خطبۃ وکونہ فی مسجد یوم جمعۃ بعاقد رشید وشہود عدول …… (وینعقد) متلبسا (بإیجاب) من أحدہما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضی) لأن الماضی أدل علی التحقیق.
قولہ: بعاقد رشید وشہود عدول) فلاینبغی أن یعقد مع المرأۃ بلا أحد من عصبتہا، و لا مع عصبۃ فاسق، و لا عند شہود غیر عدول۔ (کتاب النکاح،ج: 3/صفحہ: 8 و9، ط: ایچ، ایم، سعید)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
شرعاً پورا ختیار ہے جس کے ذریعہ دل چاہے نکاح پڑھا لیا جائے، کسی خاص نکاح خواں کی قید نہیں ہے، لہذا جو شخص دیندار اور مسائل نکاح سے واقف ہو اس سے نکاح پڑھوایا جائے۔ (ماخوذ از فتاوی محمودیہ) فقط واللہ اعلم

 



Leave a Comment