Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



قرآن شریف کی ترتیب؟



السلام علیکم
سوال: معلوم یہ کرنا تھا کہ قرآن شریف کو کس ترتیب سے چھاپا گیا ہے مضامین کے اعتبار سے یا نزول کے اعتبار سے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ عہدِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہی رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں قرآنِ پاک کی سورتوں کو موجودہ ترتیب دی گئی، البتہ تیس پاروں پر قرآنِ مجید کی تقسیم کب اور کس نے کی؟ ابھی تک نام متعین نہ ہوسکا، بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس کی تقسیم ہوئی، یہ تقسیم معنیٰ کے اعتبار سے نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات پارہ کا اختتام ادھوری بات پر ہوجاتا ہے، ایک رائے کے مطابق یہ تقسیم بچوں کو قرآن پڑھانے میں آسانی کے لیے کی گئی ہے۔
علامہ محمد بن بہادر بن عبداللہ الزرکشی ابوعبداللہ فرماتے ہیں:
وأما التحزیب والتجزءۃ فقد اشتہرت الأجزاء من ثلاثین، کما فی الربعات بالمدارس وغیرہا۔ (البرہان فی علوم القرآن، ج1/250، مکتبہ: دارالمعرفہ بیروت)
جب کہ ایک روایت کے مطابق یہ تقسیم اس لیے کی گئی کہ قرآنِ کریم مہینہ میں ختم کیا جاسکے، اس رائے کی بنیاد ایک حدیث پر ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
وحدثنا عبداللہ بن محمد الرومی، حدثنا النضر بن محمد، حدثنا عکرمۃ وہو ابن عمار، حدثنا یحیی، قال: انطلقت أنا وعبداللہ بن یزید، حتی نأتی أبا سلمۃ، فأرسلنا إلیہ رسولاً، فخرج علینا، وإذا عند باب دارہ مسجد، قال: فکنا فی المسجد حتی خرج إلینا، فقال: إن تشاؤا، أن تدخلوا، وإن تشاؤا، أن تقعدوا ہا ہنا، قال فقلنا: لا، بل نقعد ہا ہنا، فحدثنا، قال: حدثنی عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، قال: کنت أصوم الدہر وأقرأ القرآن کل لیلۃ، قال: فإما ذکرت للنبی صلی اللہ علیہ وسلم، وإما أرسل إلی فأتیتہ، فقال لی: ألم أخبر أنک تصوم الدہر وتقرأ القرآن کل لیلۃ؟ فقلت: بلی، یا نبی اللہ، ولم أرد بذلک إلا الخیر، قال: فإن بحسبک أن تصوم من کل شہر ثلاثۃ أیام قلت: یا نبی اللہ، إنی أطیق أفضل من ذلک، قال: فإن لزوجک علیک حقاً، ولزورک علیک حقاً، ولجسدک علیک حقاً۔ قال: فصم صوم داود نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فإنہ کان أعبد الناس، قال: قلت: یا نبی اللہ، وما صوم داود؟ قال: کان یصوم یوماً ویفطر یوماً، قال: واقرأ القرآن فی کل شہر، قال قلت: یا نبی اللہ، إنی أطیق أفضل من ذلک، قال: فاقرأہ فی کل عشرین، قال قلت: یا نبی اللہ، إنی أطیق أفضل من ذلک، قال: فاقرأہ فی کل عشر، قال قلت: یا نبی اللہ، إنی أطیق أفضل من ذلک، قال: فاقرأہ فی کل سبع، ولاتزد علی ذلک، فإن لزوجک علیک حقاً، لزورک علیک حقاً، ولجسدک علیک حقاً، قال: فشددت، فشدد علی... الخ. (باب النہی عن صوم الدہر لمن تضرر بہ أو فوت بہ حقا أو لم یفطر العیدین والتشریق، وبیان تفضیل صوم یوم، وإفطار یوم، ج2/813، مکتبہ: دار إحیاء التراث العربی بیروت)
خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ قرآن ایک مہینہ میں ختم کیا کرو۔۔۔ الخ
علوم القرآن مؤلفہ مفتی محمد تقی عثمانی میں ہے:
”آج کل قرآنِ کریم تیس اجزاء پر منقسم ہے جنہیں تیس پارے کہا جاتا ہے، یہ پاروں کی تقسیم معنیٰ کے اعتبار سے نہیں، بلکہ بچوں کو پڑھانے کے لیے آسانی کے خیال سے تیس مساوی حصوں پر تقسیم کردیا گیا ہے، چنانچہ بعض اوقات بالکل ادھوری بات پر پارہ ختم ہوجاتا ہے، یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تیس پاروں کی تقسیم کس نے کی ہے؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف نقل کراتے وقت انہیں تیس مختلف صحیفوں میں لکھوایا تھا، لہٰذا یہ تقسیم آپ ہی کے زمانے کی ہے، لیکن متقدمین کی کتابوں میں اس کی کوئی دلیل احقر کو نہیں مل سکی، البتہ علامہ بدر الدین زرکشی نے لکھا ہے کہ قرآن کے تیس پارے مشہور چلے آتے ہیں اور مدارس کے قرآن نسخوں میں ان کا رواج ہے، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقسیم عہدِ صحابہ کے بعد تعلیم کی سہولت کے لیے کی گئی ہے“۔ (ص: 201، ط: ادارۃ المعارف) فقط واللہ اعلم

 



Leave a Comment