Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



قسط پر گاڑی خریدنا؟



سوال: حضرت ہم بائک خرید رہے ہیں، وہ بائیک کیش پیمنٹ پر ۱/ لاکھ کی ہے، اگر ہم پچاس ہزار روپئے کیش پیمنٹ کر رہے ہیں اور باقی قسطیں بنوا رہے ہیں تو وہ بائیک ایک لاکھ آٹھ ہزار روپیہ کی ہو جائے گی۔ تو کیا اس طرح بائیک خرید سکتے ہیں؟ کیا یہ آٹھ ہزار روپئے سود کے ہوئے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق: قسطوں پر موٹرسائیکل یا کوئی بھی چیزخریدنا جب کہ قسطوں کی قیمت نقد ادائیگی کی بنسبت زائدبھی ہوتی ہے جائز ہے۔ بشرطیکہ کل قیمت اور اقساط ابتدا ہی میں طے کرلی جائیں اور ادائیگی میں مقررہ وقت سے تاخیر یا قبل از وقت ادا کرنے کی صورت میں طے شدہ قیمت میں اضافہ یا کمی نہ کی جائے۔ تو اس طرح زائد رقم سود میں شمار نہ ہوگی۔ بلکہ ادھار میں زیادتی سمجھی جائے گی۔
لیکن آج کل مارکیٹ میں گاڑیوں کی قسطوں پر جو خرید وفروخت ہوتی ہے، اُس میں عام طور پر کسی بینک یا فائنانس کمپنی کا واسطہ ضرور ہوتا ہے اور بینک یا فائنانس کمپنی اپنے اصول کے مطابق ادھار کی مقدار اور قسطوں کی مدت کے مد نظر متعینہ انٹرسٹ لیتی ہے، یعنی: بینک یا فائنانس کمپنی ، خریدار کی طرف سے ، سامان فروخت کرنے والی کمپنی کو جو پیسہ نقد ادا کرتی ہے، وہ بینک یا فائنانس کمپنی کی طرف سے خریدار کے حق میں قرض ہوتا ہے اور بینک یا فائنانس کمپنی اُسی قرض پر متعینہ انٹرسٹ لیتی ہے ۔اور اسلام میں جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے؛ لہٰذا کسی بینک یا فائنانس کمپنی کے واسطہ سے ادھار قسطوں پرکوئی گاڑی وغیرہ خریدنا جائز نہ ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، یلزم أن تکون المدة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط (مجلة الأحکام العدلیة مع شرحہا :درر الحکام لعلي حیدر، ۱:۲۲۷، ۲۲۸۔ط: دار عالم الکتب الریاض)
قولہ: ”کل قرض جر نفعًا حرام“: أي: إذا کان مشروطًا، کما علم مما نقلہ عن البحر وعن الخلاصة (رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، فصل في القرض، ۷: ۳۹۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
الربا ہو القرض علی أن یؤدي إلیہ أکثر أو أفضل مما أخذ (حجة اللّٰہ البالغة، الربا سحت باطل ۲:۲۸۲)

 



Leave a Comment