Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



شراب یا حرام لقمہ کی وجہ سے عبادات کا حکم؟



السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت میرا سوال ہے کہ لوگ شراب پینے کی وجہ سے یا حرام لقمہ کھانے کی وجہ سے چالیس دن کے اعمال قبول نہیں ہوتے کہتے ہیں یہ بات کہاں تک درست ہے؟ اور اور اعمال قبول نہ ہونے کا صحیح مراد کیا ہے اور واقعی کوئی شراب پی لے یا حرام لقمہ کھا لے تو کیا وہ اور اس کے اعمال چالیس دن تک قبول نہیں ہوں گے؟ اس کے بارے میں تفصیل سے تھوڑا جواب دو حضرت۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حدیث شریف میں یہ ہے: ان العبد لیقذف اللقمۃ الحرام فی جوفہ ما یتقبل اللّٰہ منہ عمل اربعین یوماً اھ (المعجم الاوسط، رقم: 6495) یعنی بندہ جب حرام لقمہ پیٹ میں ڈال لیتا ہے تو چالیس دن تک اُس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور یہ ظاہر ہے کہ عمل میں نماز بھی داخل ہے قبول نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ قبول ہونے پر جو اجر و ثواب ملتاوہ نہیں ملے گا؛ البتہ ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا مثلاً نماز اِس حالت میں پڑھ لی تو اُس پر ادائیگی کا حکم ہوگا اُس کا لوٹانا واجب نہ ہوگا۔
چالیس روز تک عمل قبول نہ ہونے میں فرائض و نوافل سب شامل ہیں اور قبول نہ ہونے سے مراد ذمہ سے ساقط ہونے کے بعد اللہ کے یہاں سے قبولیت کا جواجر وثواب ملتاہے، وہ نہیں ملے گا، مگر ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، فرائض و نوافل سب شامل کی حدیث بخاری (لا یقبل اللّٰہ صرفا ولا عدلا) کے تحت فتح الباری میں ہے۔

واختلف تفسیرہا، فعند الجمہور الصرف الفریضۃ والعدل النافلۃ۔ (فتح الباری، باب حرم المدینۃ، دارالفکر 86/4، اشرفیہ دیوبند 106/4، تحت رقم الحدیث:1870) فقط واللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

 



Leave a Comment