Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



مقروض اگر قرض واپس نہ کرے؟



سوال: میں ایک جگہ پھنس گیا ہوں وہ شخص پیسے دینے میں بہت تاخیر کر رہا ہے، میرے پاس کاغذات موجود ہیں جس کے ذریعہ میں کانونی کاروائی کرسکتا ہوں، کیا ایسا کرنا شریعت کی روشنی میں صحیح ہوگا؟
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس نے لوگوں کو قرض دے رکھا ہو اور لوگ خوشحال ہونے کے باوجود بھی اگر اس کا قرض واپس نہ کریں تو وہ دو صورتیں اپنائے۔ پہلے وہ بااثر افراد کے ذریعے ان سے بات چیت کرے تاکہ وہ اس کی رقم واپس کر دیں اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہو تو ایسی صورت میں قرض دینے والا شرعی حدود میں رہتے ہوئے مدیون سے اپنے قرض کا مطالبہ کرسکتاہے، متعلقہ قانونی اداروں سے معاونت حاصل کرسکتاہے۔، عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ اگر مطالبے اور کوشش کے باوجود قرض دینے والے کو اپنا حق نہ مل رہا ہو تو زبردستی یا مقروض کی امانت سے اپنا حق وصول کرنے کی بہی شرعاً اجازت ہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اپنے حق سے زیادہ وصول نہ کر لے، ورنہ سخت گناہ گار ہوگا۔
الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین (رد المحتار) (4/95): ''مطلب یعذر بالعمل بمذہب الغیر عند الضرورۃ
(قولہ: وأطلق الشافعی أخذ خلاف الجنس) أی من النقود أو العروض؛ لأن النقود یجوز أخذہا عندنا علی ما قررناہ آنفًا. قال القہستانی: وفیہ إیماء إلی أن لہ أن یأخذ من خلاف جنسہ عند المجانسۃ فی المالیۃ، وہذا أوسع فیجوز الأخذ بہ وإن لم یکن مذہبنا؛ فإن الإنسان یعذر فی العمل بہ عند الضرورۃ کما فی الزاہدی. اہ۔ قلت: وہذا ما قالوا: إنہ لا مستند لہ، لکن رأیت فی شرح نظم الکنز للمقدسی من کتاب الحجر۔ قال: ونقل جد والدی لأمہ الجمال الأشقر فی شرحہ للقدوری أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس کان فی زمانہم لمطاوعتہم فی الحقوق. والفتوی الیوم علی جواز الأخذ عند القدرۃ من أی مال کان لا سیما فی دیارنا لمداومتہم للعقوق۔
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ (4/153): وقال أبو حنیفۃ: لہ أن یأخذ بقدر حقہ إن کان نقدًا أو من جنس حقہ، وإن کان المال عرضًا لم یجز؛ لأن أخذ العوض عن حقہ اعتیاض، ولاتجوز المعاوضۃ إلا بالتراضی، لکن المفتی بہ عند الحنفیۃ جواز الأخذ من خلاف الجنس۔ فقط واللّٰہ اعلم

 



Leave a Comment