Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



حرام آمدنی والے سے خریدو فروخت کرنا؟



سوال: دکان والے کے یہاں گراہک آتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ پتہ ہو یا شبہ ہو کہ ان کی آمدنی حرام مال سے ہے تو کیا دکان والے کو پیسہ لے کر سامان دینا چاہئے؟
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن لوگوں کی آمدنی کا بالکل حرام خالص ہونا معلوم ہو، ان کو کوئی چیز فروخت کرنا اور اس مالِ حرام میں سے قیمت لینا جائز نہیں۔
قال اللّٰہ تعالیٰ: وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ، وعن ابن عباس مرفوعاً: إن اللّٰہ تعالیٰ إذا حرم علی قوم أکل شیء حرم علیہ ثمنہ (أبوداؤد)
البتہ جن لوگوں کی کمائی مشتبہ ہو یا حلال وحرام سے ملی ہوئی ہو اور حلال غالب ہو ان کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ قیمت حلال مال سے دے؛ اس لیے کہ مشتبہ چیز سے بچنا دشوار ہے لہٰذا ضرورۃً اس کی اجازت ہے۔
لأن الضرورات تبیح المحظورات، ولا یکلف اللہ نفسا إلا وُسعَہا۔
البتہ خرید وفروخت اور کرایہ داری وغیرہ، یعنی: مالی معاملات میں امام کرخی رحمہ اللہ کے قول پر گنجائش ہے؛ بہ شرطیکہ وہ حرام مال کی صراحت کے ساتھ اُسے متعین کرکے نہ دے؛ لہٰذا کل یا اکثر آمدنی حرام والوں سے اپنے سامان کی قیمت لے سکتے ہیں، گنجائش ہے۔ اور اگر کوئی شخص ذاتی طور پر احتراز کرے تو اِس کے افضل وبہتر ہونے میں کچھ شبہ نہیں۔
أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغی أن لا یقبل الھدیۃ ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا فی الینابیع، ولا یجوز قبول ھدیۃ أمراء الجور؛لأن الغالب فی مالھم الحرمۃ إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارۃ أو زرع فلا بأس بہ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب، وکذا أکل طعامھم کذا فی الاختیار شرح المختار (187/4ط دار الکتب العلمیۃ بیروت)(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الکراھیۃ، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ظ342/5، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ۔ بولاق، مصر)۔ فقط واللہ اعلم

 



Leave a Comment