Post Details




Post Details


بہترین گناہ گار کون



بہترین گناہ گار کون؟
مفتی محمد ارباب مسی قاسمي
گناہ اور نوع انسانی کا وجود ایک ساتھ ہوا۔ چنانچہ جس دن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ وجود بخشا جب ان کے ڈھانچے کے اندر روح کو داخل کیا اور نوع انسانی کو پیدا فرمایا اور اشرف المخلوقات بنایا۔ اسی دن ہی گناہ، نافرمانی، معصیت وجود میں آئی چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے سامنے پیش فرمایا اور حکم دیا تم سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو۔ سب نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تکمیل کی۔ سوائے ابلیس کے۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰئکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّا اِبْلِیْسَ۔ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ۔ (البقرۃ:34)
ترجمه: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے اس نے انکار کردیا اور لگا بڑا بننے اور کافر ہی رہا۔
اللہ تعالیٰ نے جب تمام ملائکہ کو حکم دیاکہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے باوجود یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جناتوں کو ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن فرشتوں کی سفارش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو قتل نہ کرنے کا حکم دیا اور اسے ملائکہ کے ساتھ رہنے کی اجازت مل گئی۔ چنانچہ وہ ملائکہ کے ساتھ رہنے لگا۔ اور ملائکہ اس کی عبادت کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ لیکن جس دن اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے بنی آدم کو وجود بخشا۔ خاص بات بنی آدم کی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم میں اچھائی اور برائی دونوں کا مادہ رکھا۔ اور فرشتوں کے اندر سوائے اچھائی کے کوئی دوسرا مادہ نہیں رکھا۔ وہ مکمل طورپر معصوم تھے اس سے کسی گناہ کا ارتکاب ہونے کا امکان ہی نہیں تھا۔ ان کے اندر اللہ کے حکم کے خلاف ورزی کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھی گئی وہ ہردم ہر وقت اطاعت خداوندی کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اس پر فرشتوں نے سوال کیاکہ کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مخلوق کو پیدا فرمایا کیا ہم آپ کی عبادت کے لئے محض کافی نہ تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا جس بات کا علم مجھے ہے اس بات کا علم تمہیں نہیں ہے۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً۔ قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ۔ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ۔ قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ۔ (البقرۃ:30)
ترجمه: اور یاد کروجب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہاکہ میں زمین میں (انسان) کو خلیفہ بنانے والا ہوں انہوں نے کہا کیا اس میں اس کو رکھے جو اس میں فساد مچائے اور خون بہائے اور ہم تیری حمد کی تسبیح کرتے اور تجھے پاک کہتے ہیں اس نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ سے وضاحت ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوع انسان کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ۔ (الذٰریٰت:56)
ترجمه: میں نے جناتوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا لیکن باوجود اس واضح حکم کے انسان فضولیات میں بڑھ کر گناہ میں ملوث ہوجاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بنی آدم کے اندر غلطی، خطاء اور برائی کا مادہ فرمایا ہے۔ اس بات کی تائید اس واقعہ سے ہوئی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آم علیہ السلام کو جنت میں اس درخت کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا تھاکہ تم اس درخت کے قریب مت جانا۔ لیکن چونکہ بنی آدم کے پیچھے شیطان ہاتھ ھوکر پیچھے پڑا ہوا تھا۔ اور وہ ہرممکن کوشش کررہا تھاکہ کسی طرح سے وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سیدھے راستے سے ہٹادے اور اپنے مشن میں کامیاب ہوجائے، چنانچہ اس نے حضرت آدم کے ذہن میں ڈالاکہ تم اس درخت کے قریب جاؤ اور اسے کھاؤ۔
فَوَسْوَسَ لَہُما الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَاوٗرِیَ عَنْہُمَا۔ (الاعراف:20)
ترجمه: پھر شیطان نے دونوں کے اندر وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہوں کو جو ان دونوں سے چھپی تھی ان دونوں کے سامنے کھول دے۔
قَالَ یٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی۔ (طٰہٰ:120)
ترجمه: کہا اے آدم کیا میں تجھے دائمی زندگی کے درخت کا پتہ بتادوں اور ایسی بادشاہی کا جس پر کبھی زوال طاری نہ ہو۔
آیت قرآنی سے واضح ہواکہ کس طرح سے حضرت آدم علیہ السلام کو شیطان مردود ملعون نے بہکایا اور اس نے کس طرح سے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوایا اور اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس سرزمین میں مبعوث کیا ہے۔ خلاصہ

 



Leave a Comment