Post Details




Post Details


تکبر کی مذمت تواضع کی فضیلت



مفتی محمد ارباب صحب شمسی قاسمیؔ
اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دو عالَم بنائے ہیں ایک عالَمِ دنیا ایک عالَمِ آخرت۔ عالَم دنیا وہ ہے جس میں انسان فی الحال موجود ہے۔ اور اس میں اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ اورجس طرح اس عالَم دنیا میں وہ اپنی زندگی گزارے گا اسی طرح اس کا انجام عالَم آخرت میں ہوگا۔ عالَم دنیا میں اگر تکبر، اور گھمنڈسے کام لیاتو عالَم آخرت میں اسی کے مطابق سزا بھی ملے گی۔ اس کے برخلاف اگر عالَم دنیا میں عاجزی وانکساری ومحبت سے کام لیا تو اسی کے مطابق عالَم آخرت میں انعام اور اس کے ثمرات عطا ہوں گے۔
انسان اپنی زندگی میں کئی اچھے اعمال کرتا ہے لیکن صرف اس ایک گناہ کے چکر میں یا ایک دل کی بیماری کے چکرمیں اپنے سارے اعمال کو برباد کردیتا ہے۔ چنانچہ اس بیماری اور گناہ کا نام کبر ہے۔ انسان ایک طرف کئی اچھے اعمال کرے لیکن اگر اس کے دل میں کبر کا ذرہ بھی آگیا تو اس کی ساری عبادت سارے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ کئی واقعات ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ کبر کی وجہ سے ان کی سالوں کی عبادت برباد ہوگئی۔ اور سالوں کی عبادت ضائع ہوگئی محض ان کے کبر کی وجہ سے۔
تکبر ”بطرالحق وغمط الناس“ کو کہتے ہیں کہ آدمی اپنے مقابلے میں دوسروں کو کمتر سمجھے۔ اور حقیر وفقیر سمجھے۔ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے۔ حقوق سے مراد حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں ہیں۔ جب کوئی شخص بندوں کے حقوق میں کمی کرتا ہے یہ سوچ کر کرتا ہے کہ میں اس سے درجہ میں بڑا ہوں یا یہ حقیر ہے تو اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا۔ اگرچہ اس نے حقوق اللہ میں کمی کی یہ سوچ کر میں اللہ کا سب سے بڑا عابد ہوں۔ اور دیگر لوگ تو بس ایسے ہی ہیں پھر اب اس شخص کی حفاظت اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔
تکبر ایک ایسا مرض ہے کہ اگر اس کو سات سمندر سے بھی دھولیاجائے تب بھی اس کا اثرباقی رہتا ہے۔
تکبر ہی تمام امراض کی جڑ ہے۔ یہی ہے جو پہلے دنیا میں آیا۔ یہی مرض ابلیس کی لعنت کا سبب بنا۔ اسی مرض نے قابیل کو اولین قاتل بنایا۔ اسی مرض کی وجہ سے بنی اسرائیل وادی تیہ میں بھٹکتے رہے۔ چنانچہ جب ان کو حکم ہواکہ تم عاجزی وانکساری کے ساتھ داخل ہو۔ لیکن ان کی تکبر اور بڑائی نے انہیں عاجزی کے ساتھ داخل ہونے نہیں دیا۔ اپنی سرین کے سہارے گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے۔ ارشاد خداوندی ہے:
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْاَشَدُّ قَسْوَۃً۔ (سورۃ البقرہ، آیت:74)
ترجمہ: ایسے ایسے واقعات کے بعد تمہارے دل پھر بھی سخت ہی رہے تو(یوں کہنا چاہئے کہ) ان کی مثال پتھر کی سی ہے بلکہ سختی میں (پتھر سے بھی) زیادہ سخت۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ یہ صرف ان کی کبریائی کی وجہ تھی۔
ایک جگہ ارشاد نبی ہے
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ ہَنَّادٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:'' قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ: الْکِبْرِیَاءُ رِدَاءِی، وَالْعَظَمَۃُ إِزَارِی، فَمَنْ نَازَعَنِی وَاحِدًا مِنْہُمَا قَذَفْتُہُ فِی النَّارِ۔ (ابوداؤد حدیث رقم:4090)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل کا فرمان ہے: بڑائی (کبریائی) میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند، تو جو کوئی ان دونوں چیزوں میں کسی کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا“۔
کبریائی اللہ کی چادر ہے۔ اگر کوئی اور اللہ کی چادر کو لے یاختیارکرنے کی کوشش کرے، تو اس کی ہلاکت سے اسے کوئی نہیں بچاسکتا۔
دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے
وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمَ وَلَبِءْسَ الْمِہَادُ۔ (سورۃ البقرہ، آیت:206)
ترجمہ: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو آمادہ کرے اس کو غرور گناہ پر سوکافی ہے اس کو دوزخ اور وہ بیشک بڑا ٹھکانا ہے۔
چنانچہ وہ شخص جس کے اندر کبر سرایت کرچکا ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ جب کبھی اس سے کہاجاتا ہے۔ اللہ سے ڈرو۔ اور زیادہ فساد مت پھیلاؤ تو بجائے سمجھنے کے اور فساد برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کبر ہی اس کی وجہ ہے جو اسے اس چیز پر آمادہ کرتا ہے۔
تیسری جگہ ارشاد خداوندی ہے

وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ

 



Leave a Comment