Post Details




Post Details


تبلیغ میں اعلیٰ کردار کی حیثیت



تبلیغ میں اعلیٰ کردار کی حیثیت
(ام اراب)
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا خیرخواہ اور اس کی دنیا وآخرت کا ہمدرد ومددگارہو؛ اس لئے اس نے پورے اسلامی معاشرے کے لئے انفرادی واجتماعی طورپر اس کو لازم کردیا ہے کہ ہر مسلمان اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور اس کے احکامات وہدایات کی پابندی تو کرتا ہی رہے اس کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کے ہر فرد کو بھی حسب مراتب اچھی باتوں کا حکم دیتا رہے اور بری باتوں سے روکتا رہے۔ یہ ایک ایسا فریضہ عادلہ ہے کہ اس کی مقدار ومراتب اور اچھی باتوں میں کمی زیادتی تو ہوسکتی ہے مگر کسی کے لئے بھی بلاعذر شرعی معافی نہیں ہوسکتی ہے۔
اسلام ایک آفاتی اور ابدی مذہب ہے۔ اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا سلسلہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا ہے۔ اس لئے ضروری تھاکہ اسلام میں تحفظ دین وبقاء اسلام کا کوئی ایسا نظام تجویز کردیا جاتا جس کے ذریعہ سے ایک طرف مسلمانوں کو دینی تقاضوں سے غفلت برتنے اور لاپرواہی میں پڑ جانے سے محفوظ رکھا جاسکتا تو دوسری جانب غیرمسلموں تک اسلام کو پہونچانے اور اس کی جانب دعوت دیتے رہنے کا انتظام بھی کیا جاسکتا۔ شریعت اسلامی نے چنانچہ اسی ضرورت کے پیشِ نظر اپنے ماننے والوں پر دعوت الی اللہ اور امربالمعروف نہی عن المنکر کی ذمہ داری لازم کردی ہے تاکہ ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق اس فریضے کو ادا کرے۔ کیونکہ صرف اپنے ذاتی فرائض وواجبات کو ادا کرنے سے مسلمان اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ ارشاد ربانی ہے۔
کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُ وْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔ (اٰل عمران، آیت:۱۱۰)
ترجمه: تم لوگ اچھی جماعت ہوکہ وہ جماعت لوگوں کے لئے ظاہر کی گئی ہے تم لوگ نیک کاموں کو بتلاتے ہو۔ اور بری باتوں سے روکتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہو۔
اس آیت مبارکہ میں معاشرے کی اصلاح کا ذمہ دار تمام مسلمانوں کو بتایا ہے۔ اس لئے ہرمسلمان کو اس کی فکر کرنا چاہئے۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی اصلاح کی فکر ضروری نہیں ہے۔ قرآن وسنت اور سلفِ صالحین کی تعلیمات بتلاتی ہیں کہ خود کی اصلاح اور اپنے آپ کو منکرات سے محفوظ اور معروفات کا پابندبنانا بھی نہایت ضروری امر ہے۔ بالخصوص داعی اور مصلح ومبلغ کوتو اس سلسلے میں اور بھی زیادہ فکرمند وہوشیار رہنا چاہئے۔ کیونکہ دعوت وتبلیغ کا طریقہ کار کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو۔ اس وقت تک بے کار اور غیر مؤثر ہے۔ جب تک اس کو مبلغ وداعی کی بلند کرداری، اعلی ظرفی اور اخلاقی قوت کا تحفظ حاصل نہ ہو۔ انسانی فطرت ہے کہ مدعو پہلے داعی کا کردار اور اس کی شخصیت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اگر داعی کی شخصیت غیر معتبر اور کردار داغدار ہے تو دعوت وتبلیغ میں اثر پیدا نہیں ہوسکتا۔ اگر داعی کی شخصیت اوصافِ حمیدہ (اچھے اور نیک اعمال واخلاق) کی حامل ہو۔ اور کردار پاکیزہ ہو۔ تو دعوت میں خودبخود مقناطیسی تاثیروقوت پیدا ہوتی ہے۔
مخاطب کی تعمیر سیرت اور تشکیل ذات کے لئے سب سے اعلیٰ نمونہ خود مبلغ وداعی کا ذاتی کردار اور اخلاق ہے۔ جس چیز کی وہ دعوت دے رہا ہے کیا وہ خودبھی اس پر عمل پیرا ہے؟ کیا اس کے قول وفعل میں تضاد تو نہیں؟ کیا وہ خود بھی اس دعوت کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو مخاطب اور مدعو سب سے پہلے دیکھتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ داعی کی سیرت ایسی پاکیزہ وجاذب نظر ہوکہ لوگ خودبخود اس کی طرف کھنچتے چلے جائیں۔ لیکن افسوس! آج ہم سب لوگ چاروں طرف یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ معاشرہ بگڑگیا ہے۔ سماج خراب ہوگیا ہے۔ کسی کو کتنا ہی سمجھاؤ اس پر اثر نہیں ہوتا۔ دعوت وتبلیغ سب بیکار نظر آتی ہے۔ مگر کیا! ہم میں سے کسی نے اپنے اوپر نظر ڈالنے کی جرأت کی ہے؟ ہم سب اکثریت سے بے عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بے عملی سے بچائے۔ خالی بڑی۔بڑی باتیں کہنے اور سننے سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اصلی چیز ہے داعی اور واعظ کا خود بھی اس چیز پر عمل پیرا ہونا۔ اور اپنے چھوٹوں اور گھروالوں کو ہر نیک عمل پر ابھارنا۔ اب اگر پھربھی وہ لوگ اس پر عمل نہ کریں۔ تب بھی آپ اور ہم ان کے لئے دعا اور دوا کی کوشش کرتے رہیں۔ یعنی انہیں سمجھاتے رہیں تاکہ کم از کم ہماری پکڑ کم سے کم ہو کیونکہ داعی بھی تو غلطیوں اور بھول سے مبّرا(پاک) نہیں ہے۔ ہر ایک انسان کی کوئی نہ کوئی کمزوری ضرور ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اس سے خطاء بھی ہوجاتی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی یادرہے ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان بھی اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ اس کو بھٹکانے کی محنت میں لگا ہوا ہے۔ بس ہروقت شیطان مردود سے بچنے کی دعا کے ساتھ کوشش بھی کرتے رہنا چاہئے۔ داعی بھی اس سے خالی نہیں ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ داعی اپنی کمیوں کی وجہ س

 



Leave a Comment