Post Details




Post Details


مسلمانوں کو اس طرح کے حالات سے گھبرانا اور ڈرنا نہیں چاہیے



بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلي عل رسوله الكريم، أما بعد
مسلمانوں کو اس طرح کے حالات سے گھبرانا اور ڈرنا نہیں چاہیے، یہ حالات تو آتے جاتے رہتے ہیں
ایک مسلمان کے دیکھنے کی اور فکر کرنے کی اصل چیز یہ ہے کہ ایسے حالات میں، اُس نے ذاتی طور پر آخرت کی کیا تیاری کر رکھی ہے؟
١: اپنے اوپر واجب حقوق اللہ کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ سب ادا ہیں، یا کچھ بقايا جات ہیں، اگر نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، وغیرہ فرائض یا واجبات میں سے کچھ باقی ہو تو پہلی فرصت میں ان کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے، ورنہ کم از کم ایک پرچے پر ان کی تفصیلات لکھ کر وصیت نامہ ہی تیار کردے
٢: اپنے ذمہ حقوق العباد پر غور کرلینا چاہیے کہ وہ صاف ہیں، یا نہیں، حقوق العباد مختلف طرح کے ہوسکتے ہیں
أ: والدین، بیوی، بچوں، بھائی، بہنوں اور دیگر رشتے داروں کے عائلی (ان کی خدمت، یا تربیت، یا خرچ وغیرہ سے متعلق) حقوق
ب: کسی بھی شخص کے معاملاتی حقوق، خواہ وہ معاملہ سودے کے طور پر جائز طریقے سے ہوا ہو، اور خواہ ناجائز طریقے پر کسی کا کوئی حق دبا رکھا ہو
ج: کسی بھی مسلمان کی جان، یا آبرو پر (ہاتھ سے، یا زبان سے، یا قلم سے) زیادتی ہوگئی ہو؛ خواہ خود پہل کرکے، جیسے بلا ضرورت کسی کا برا تذکرہ کرنا، خواہ اپنے دفاع میں شرعی حد سے زیادہ بدلہ لینا
جلد از جلد ان تمام پہلوؤں پر غور کرکے، اور اپنا محاسبہ کرکے، یہ سب معاملات دنیا ہی میں صاف کرلینے چاہئیں، ورنہ آخرت میں اگر خدانخواستہ اپنی جمع پونجی نیکیوں کے ذریعے یہ حقوق ادا کرنے پڑگئے تو اس کا انجام خود ہی سوچ لینا چاہیے
اگر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی یہ ذمہ داریاں اللہ کے فضل اور اس کی بخشی ہوئی توفیق سے ہم نے ادا کرلی ہے، تو پھر موت سے ڈرنا کیا؟ وہ تو محبوب سے ملانے کا سب سے قریبی ذریعہ ہے، اور مؤمن کے اپنے اصلی وطن پہنچنے کا آخری اسٹیشن ہے، جس کے بعد نہ کسی طرح کا کبھی بھی کوئی غم ہونا ہے، اور نہ کوئی پریشانی، نہ کوئی حسرت، نہ کوئی افسوس
اسی دن کے لیے تو ہر مسلمان جیتا ہے کہ کسی طرح اُس کا خاتمہ بالخیر ہوجائے، تو جو اصل مقصودِ زندگی ہے اُسی کے حصول اور وصول سے ڈرنے اور گھبرانے کا کیا مطلب؟
ہاں اگر خدانخواستہ اپنے ذمہ کے واجب حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہورہی ہے، اور ان کی ادائیگی کا کوئی بند وبست نہیں کیا جارہا ہے، پھر یقیناً ڈرنا چاہیے، کہ نعوذباللہ موت آتے ہی اپنی اصلاح کا اور عمل کا موقع ختم ہو جائے گا، اور پھر اب تک کی گذاری ہوئی زندگی کے نتائج سامنے آنا شروع ہوجائیں گے
پھر اگر یہ ڈر ہم کو اُن حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کردے، اور اپنی اصلاح کی فکر پیدا کردے، تو کتنا مبارک اور قابلِ قدر ہے؛ یہ ڈر
یہی تو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اس طرح کے حالات سے اہلِ ایمان عبرت پکڑیں، اور اِس فانی دنیا کی فکر کم کرکے، آنے والی ہمیشہ ہمیش کی زندگی کی فکر اپنے اندر پیدا کرلیں
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس طرح کے حالات کی خبریں زیادہ پھیلانی نہیں چاہئیں، کہ اس سے کمزور دل اور ضعیف الایمان لوگوں پر مایوسی اور بزدلی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کا دنیاوی نقصان بھی ہوتا ہے، اور دینی نقصان بھی
ہر شخص کو مرنے کی تیاری کرنی چاہیے، اور جو لوگ مرگئے ہیں؛ بحیثیت مسلمان کے ان کے جو حقوق ہم پر آتے ہیں، وہ ادا کرنا چاہیے، یعنی اُن سب کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت
دعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، ہمارے استاذ حضرت مولانا محمد عاقل صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ آج کل ہمارے اعمال اور احوال تو ایسے ہیں نہیں کہ جو اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں، لے دے کر ایک دعاء ہی بچی ہے کہ اسی کے ذریعے رو گڑ گڑا کر رحمتِ حق کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے، یہ دربار ہر ایک کے لیے ہمہ وقت کھلا ہوا ہے، بس کوئی ہاتھ اٹھانے اور آنسو بہانے والا ہونا چاہیے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعاؤں اور مناجات میں مشغول فرمائیں، اور اپنی رحمت کے صدقے میں، رمضان المبارک کی برکت سے ہم سب کا دین اور دنیا سب کچھ درست فرمادیں، آمین
بحرمة سيد المرسلين محمد، صلى الله عليه وآله وصحبه أجمعين، وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

 



Leave a Comment