Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



نوزائدہ کی نماز جنازہ؟



سوال: ایک بچہ جو پیدائش کے پانچ روز کے بعد انتقال کر گیا تو کیا اس کا غسل اور نماز ادا کی جائے گی؟
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو بچہ ماں کے پیٹ سے مرا ہوا پیدا ہو یعنی پیدا ہوتے وقت اس میں زندگی کی کوئی علامت نہیں پائی جائے، اس کو بھی بڑوں کی طرح مسنون غسل دیا جائے گا، لیکن قاعدہ کے مطابق کفن نہیں دیا جائے گا، بلکہ کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر بغیر نمازِ جنازہ کے دفن کر دیا جائے گا۔ ایسے بچے کا نام بھی رکھ دینا چاہیے۔
اور جو بچہ زندہ پیدا ہو اور بعد میں مرجائے یا پیدا ہوتے ہی فورًا مرجائے، اس کے غسل، کفن، نماز، دفن وغیرہ کے اَحکام بڑوں کی طرح ہیں، یعنی اسے مسنون غسل اور کفن دیا جائے گا، نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی، پھر دفن کیا جائے گا اور اس کا نام بھی رکھا جائے گا۔
اور اگر بچہ ناتمام پیدا ہو یعنی اس کے ہاتھ پاؤں منہ ناک وغیرہ عضو کچھ نہ بنے ہوں تو اسے نہلانے، کفنانے کی ضرورت نہیں، بلکہ کسی کپڑے میں لپیٹ کر ایک گڑھا کھود کر گاڑ دیا جائے۔ اور اگر ناتمام بچہ کے کچھ اعضاء بن گئے ہوں تو اس کا حکم وہی ہے جو مردہ بچہ پیدا ہونے کا ہے۔ (ماخوذ از بہشتی زیور، حصہ دوم، ص:131، ط: دارالاشاعت)
الفتاوی الہندیۃ (ج:1، ص:159، 163، ط: دار الفکر): ’’ومن استہل بعد الولادۃ سمی وغسل وصلی علیہ وإن لم یستہل أدرج فی خرقۃ ولم یصل علیہ ویغسل فی غیر الظاہر من الروایۃ وہو المختار، کذا فی الہدایۃ، والاستہلال ما یعرف بہ حیاۃ الولد من صوت أو حرکۃ ولو شہدت القابلۃ أو الأم علی استہلال الولد فإن قولہما مقبول فی جواز الصلاۃ علیہ، ہکذا فی المضمرات. السقط الذی لم تتم أعضاؤہ لا یصلی علیہ باتفاق الروایات والمختار أن یغسل ویدفن ملفوفا فی خرقۃ، کذا فی فتاوی قاضی خان. ویصلی علی کل مسلم مات بعد الولادۃ صغیرًا کان أو کبیرًا ذکرًا کان أو أنثی حرًّا کان أو عبدًا إلا البغاۃ وقطاع الطریق ومن بمثل حالہم وإن مات حال ولادتہ فإن کان خرج أکثرہ صلی علیہ وإن کان أقلہ لم یصل علیہ وإن خرج نصفہ لم یذکر فی الکتاب ویجب أن یکون ہذا علی قیاس ما ذکرنا من الصلاۃ علی نصف المیت، کذا فی البدائع.‘‘ فقط واللہ أعلم

 



Leave a Comment