Fatawa ~ AIA Academy (Boys)




Fatawa Details



دو مختلف جگہوں پر عقیقے کے بقرے ذبح کرنا؟



سوال: ایک صاحب ہیں گلف کنٹری میں ان کا بچہ پیدا وہی ہوا ہے انہوں نے اپنے لڑکے کا ایک بکرا عقیقہ کیا ہے اور پھر بول رہے ہیں انڈیا جائیں گے تو ایک اور کریں گے۔ کیا یہ صحیح ہے آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی اصلاح فرمائیں؟
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق: لڑکے کے عقیقہ میں ساتویں روز دو بکرے ذبح کرنا مستحب ہے، اور یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں 14 دن، ورنہ اکیسویں 21 دن کرے، اگرعقیقہ ساتویں دن ہی ہو، یاچودھویں یااکیسویں دن، اور بکرے دو مختلف مقامات پر ذبح کیے جائیں تو بھی درست ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے اوقات میں برکت کی دعا فرمائی ہے، اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ عقیقہ صبح کے وقت طلوع آفتاب کے بعد کیا جائے، لیکن اگر کسی دوسرے وقت بھی کر لیا تو عقیقہ بلاکراہت ادا ہو جائے گا۔
البتہ ایک جانور ساتویں دن اور دوسرا کسی اور دن ذبح کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اس لیے ایسے نہ کیا جائے۔
اعلاء السنن میں ہے: ’’أنہا إن لم تذبح فی السابع ذبحت فی الرابع عشر، وإلا ففی الحادی والعشرین، ثم ہکذا فی الأسابیع‘‘. (17/117، باب العقیقۃ، ط: إدارۃ القرآن والعلوم الإسلامیۃ)
یستحب لمن ولد لہ ولد أن یسمیہ یوم أسبوعہ ویحلق رأسہ ویتصدق عند الأئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃً أو ذہباً، ثم یعق عند الحلق عقیقۃ إباحۃ علی ما فی الجامع المحبوبی، أو تطوعاً علی ما فی شرح الطحاوی، وہی شاۃ تصلح للأضحیۃ تذبح للذکر والأنثی سواء فرق لحمہا نیئاً أو طبخہ بحموضۃ أو بدونہا مع کسر عظمہا أو لا، واتخاذ دعوۃ أو لا، وبہ قال مالک. وسنہا الشافعی وأحمد سنۃً مؤکدۃً شاتان عن الغلام، وشاۃً عن الجاریۃ، غرر الأفکار ملخصاً، واللہ تعالی أعلم‘‘.(فتاوی شامی6/ 336، کتاب الأضحیۃ، ط: سعید)
عن صخر الغامدی، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ''اللّٰہم بارک لأمتی فی بکورہا.'' (سنن ابن ماجہ3/ 346) فقط واللہ اعلم

 



Leave a Comment